* وہ اُس زمیں پہ جو پہنچے کہ جس زمیں ک *
وہ اُس زمیں پہ جو پہنچے کہ جس زمیں کے نہ تھے
تو اُن کا حال ہوا یہ کہ پھر کہیں کے نہ تھے
یقین جس پہ کیا میں نے سچّے دل سے کیا
گمان و وہم سے رشتے مرے یقیں کے نہ تھے
تڑپ رہے تھے اُ نہیں اپنے دل میں د ے کے جگہ
اگر چہ غم وہ ہمارے دلِ حزیں کے نہ تھے
ہوئے جو پشت میں پیوست خنجرِ برّاں
وہ دوستوں کے تھے، دشمن کی آستیں کے نہ تھے
عجیب آج ہیں تیور تمہارے چہرے کے
جو اِس سے پہلے تمہارے رخِ حسیں کے نہ تھے
جہاں نے تھوپ دیئے ہیں مری جبین پہ جو
وہ داغِ جرم تو صابرؔ مری جبیں کے نہ تھے
*****
|