* ملگجے اُجالوں کو روشنی نہیں کہتے *
ملگجے اُجالوں کو روشنی نہیں کہتے
جھٹپٹے اندھیروں کو تیرگی نہیں کہتے
دردِ دل چھپانے کو لب پہ جو اُبھر آئے
تم اُسے ہنسی کہہ لوہم ہنسی نہیں کہتے
حرکت و عمل پر ہیں زندگی کی بنیادیں
نبض و دل کی حرکت کو زندگی نہیں کہتے
آدمی کی آنکھوں سے چھین لے جو بینائی
ایسی روشنی کو ہم روشنی نہیں کہتے
دوست بن کے جو انسان وقت پر نہ کام آئے
اُس کی دوستی کو ہم دوستی نہیں کہتے
آدمی اُسے کہئے جس میں آدمیت ہو
آدمی کے سائے کو آدمی نہیں کہتے
شعر میں کرو پیدا دردِ زندگی صابرؔ
قافیئے کی بندش کو شاعری نہیں کہتے
*****
|