* محوِ حیرت ہے فلک انساں یہاں تک آگئ *
محوِ حیرت ہے فلک انساں یہاں تک آگئے
رینگنے والے زمیں پر آسماں تک آگئے
بے خودیٔ عشق لے آئی ہمیں ایسی جگہ
خود خبر ہم کو نہیں ہے ہم کہاں تک آگئے
اب درِ محبوب سے آگے بڑھائیں کیوں قدم
ہم کو آنا تھا جہاں تک ،ہم وہاں تک آگئے
دار پر حیرت سے مجھ کو دیکھ کر کہتے ہیں لوگ
تم تو پیغمبر نہ تھے کیسے یہاں تک آگئے؟
قید سے سمتِ سفر کی ہوگئے آزاد ہم
چل پڑے جس سمت انکے آستاں تک آگئے
رہ نہ پائے جو یقیں کی راہ پر ثابت قدم
بھولے بھٹکے وہ درِ وہم و گماں تک آگئے
اُن کی نظروں نے سہارا جب دیا صابرؔ ہمیں
بڑھتے بڑھتے ہم حجابِ درمیاں تک آگئے
*****
|