* کروں پیش اور کیا میں کہ ثبوت کیا یہ *
کروں پیش اور کیا میں کہ ثبوت کیا یہ کم ہے
تری ہر ادا پہ میرا جو سرِ نیاز خم ہے
ہے جہاں میں کون ایسا کہ نہیں جسے کوئی غم
غمِ زندگی کا شکوہ تو سبھی کو بیش و کم ہے
کبھی لے کے آئو فرصت تو اسے تمہیں سنائیں
کہ صحیفۂ مسرت یہ نہیں کتابِ غم ہے
مرے چارہ گر کھڑے ہیں یہ ابھی سے کیوں فسردہ
ابھی سانس چل رہی ہے ابھی میرے دم میں دم ہے
جو نقیب جنگ کا ہے وہ سنبھالے تیغ صابرؔ
میں قلم کا ہوں مجاہد مرے ہاتھ میں قلم ہے
*****
|