* دن رات نہیں صبح نہیں شام نہیں ہے *
دن رات نہیں صبح نہیں شام نہیں ہے
تم جب سے خفا ہو مجھے آرام نہیں ہے
کیا اُن کی محبت کا یہ انعام نہیں ہے
ہے کون سی تہمت جو مرے نام نہیں ہے
ہو مجھ پہ ہی کیوں تہمتِ گستاخ نگاہی
کیااُن کی ادا موردِ الزام نہیں ہے
تقدیر سے مل جاتی ہے یہ دولتِ بیدار
معراجِ محبت کا شرف عام نہیں ہے
ہر بھیس میں آجایئے یہ کعبۂ دل ہے
مشروط یہاں جامۂ احرام نہیں ہے
یہ فیض ہے تربیتِ استاد کا صابرؔ
اشعار میں میرے کوئی ابہام نہیں ہے
******************* |