* رہائی دیتی اگر فکرِ روز گار کبھی *
رہائی دیتی اگر فکرِ روز گار کبھی
تو ہم بھی دیکھتے خوابِ وصال یار کبھی
نہ دے گا چھائوں مسافر کو ریگ زار کبھی
اُگے ہی اُس میں نہیں نخل سایہ دار کبھی
بلندیوں پہ فضائوں کی ہیںجو چھائے ہوئے
ہمارے زیرِ قدم تھے یہی غبار کبھی
کبھی توشدّتِ غم سے ابل پڑے آنسو
کیا ہے فرطِ مسرّت نے اشک بار کبھی
کبھی جنوں نے گریباں کو چاک کرڈالا
کیا خرد نے بھی دامن کو تار تار کبھی
اب ایک بار بھی وہ دیکھتے نہیں صابرؔ
جو دیکھتے تھے مجھے مڑ کے بار بار کبھی
***************** |