* ترے خیال کو دل سے کبھی مٹا نہ سکے *
ترے خیال کو دل سے کبھی مٹا نہ سکے
تجھے بھلانا بھی چاہا مگر بھلا نہ سکے
نہ جانے کون سی ایسی تھی دل پہ مجبوری
ہنسی بھی آئی لبوں پر تو مسکرانہ سکے
دیئے ہیں زخم جو دل پر غمِ محبت نے
ہم آنسوئوں سے بھی اُن کو کبھی مٹانہ سکے
زبان کھولی جو ہم نے توہونٹ کانپ اُٹھے
ہم اپنے دل کی کہانی کبھی سنانہ سکے
وفا کی راہ میں خود کو مٹا کے بھی صابرؔ
ہم اُن کو اپنی وفا کا یقیں دلا نہ سکے
(یہ غزل فلم ’’کہکشاں‘‘ میں شامل ہے)
*****
|