* ہم اسیرِ گیسوئے جانانہ بن کر رہ گئ *
ہم اسیرِ گیسوئے جانانہ بن کر رہ گئے
بن نہ پائے اور کچھ دیوانہ بن کر رہ گئے
عہدِ ماضی کے حقیقی واقعاتِ روز وشب
مختلف عنوان بنے، افسانہ بن کر رہ گئے
اٹھ گئی دیوار بٹوارے کی جب رشتوں کے بیچ
ایک ہی آنگن میں سب بیگانہ بن کر رہ گئے
نظمِ میخانہ سنبھالے کوئی بھی ایسا نہ تھا
سب حریصِ ساغر و پیمانہ بن کر رہ گئے
باغبانوں کی ہوس نے کردیا تاراج انہیں
کتنے صحنِ گلستاں ویرانہ بن کر رہ گئے
جن کے گھر بچھتے تھے دسترخوان اَوروں کیلئے
آج وہ محتاجِ آب و دانہ بن کر رہ گئے
دیکھتے ہی ہم کو ہاتھوں ہاتھ لوگوں نے لیا
ہم بھی صابر ؔتحفہ و نذرانہ بن کر رہ گئے
****************** |