* یہ زخم زخم جو مرہم دکھائی دیتا ہے *
یہ زخم زخم جو مرہم دکھائی دیتا ہے
مجھے تو کرب کا موسم دکھائی دیتا ہے
میں اپنے غم کو زمانے کا غم سمجھتا ہوں
غمِ زمانہ مرا غم دکھائی دیتا ہے
میں اُس کی بات کو سن کر خفا نہیں ہوتا
وہ میری بات پہ برہم دکھائی دیتا ہے
ہوا کا ایک ہی جھونکا دبوچ لے گا اسے
چراغِ وقت جو مدّھم دکھائی دیتا ہے
ضرور کوئی سمندر وہ پی گیا ہوگا
کہ ریگزار جو پرُنم دکھائی دیتا ہے
جمی ہے گرد تعصّب کی اُن کی عینک پر
اسی لئے تو انہیں کم دکھائی دیتا ہے
میں کیسے روئے جفا کو برُا کہوں صابرؔ
رخِ وفا بھی تو مبہم دکھائی دیتا ہے
****************** |