* گرفتِ عقل سے آزاد دیوانوں کو رہنے *
گرفتِ عقل سے آزاد دیوانوں کو رہنے دو
حصارِ مصلحت میں قید فرزانوں کو رہنے دو
تراشے جائیں گے اُن سے ابھی کچھ اور افسانے
کھنڈر کی شکل میں تاریخی ایوانوں کو رہنے دو
بنادے گی حقیقت اُن کو بھی گردش زمانے کی
حقیقت سے جو عاری ہیں اُن انسانوں کو رہنے دو
دکھائو چشمۂ آبِ حیات اے خضر مت اُن کو
حیات و موت کی دنیا میں انسانوں کو رہنے دو
سکونِ دل یہاں ملتا ہے کچھ حرماں نصیبوں کو
خدا کے واسطے آباد میخانوں کو رہنے دو
کرو تم کعبہ ہائے دل میں پیدا روشنی صابرؔ
طوافِ کعبہ میں اُلجھے مسلمانوں کو رہنے دو
**************** |