* ہر تھکا ہارا مسافر اپنے گھر تک آگی *
ہر تھکا ہارا مسافر اپنے گھر تک آگیا
کارواں جب اپنے انجامِ سفر تک آگیا
اُس کی مبہم شکل و صورت آج واضح ہوگئی
جو نظر سے دُور تھا حدِّ نظر تک آگیا
باندھ ٹوٹی تھی ندی کی صرف اتنا یاد ہے
پھر کہاں کچھ ہوش تھا جب پانی سر تک آگیا
میں نے یہ دیکھا نہیں دشمن ہے وہ یا دوست ہے
جب بھی کوئی غم کا مارا میرے در تک آگیا
پھر ہماری خوبیاں اُس کو نظر آنے لگیں
عیب جوئی کرتے کرتے وہ ہنر تک آگیا
مدّتوں چپکا رہا صابرؔ میرے ہونٹوں سے جو
آج وہ حرفِ دعا بابِ اثر تک آگیا
****************** |