* کیسے بتائوں میری کہانی کہاں کی ہے *
کیسے بتائوں میری کہانی کہاں کی ہے
کچھ بات ہے زمین کی کچھ آسماں کی ہے
اُلجھے ہوئے سبھی ہیں سوال وجواب میں
ہر آدمی کو فکر کسی امتحاں کی ہے
موجیں بھی سر جھکائیں گی کشتی کے سامنے
طوفان پر گرفت اگر بادباں کی ہے
لکھی گئی ہو جس میں ہمارے خلاف بات
دنیا میں آج قدر اُسی داستاں کی ہے
صابرؔ زبانِ وقت کو گویائی میں نے دی
جوبات اُس کے منہ میں ہے میری زباں کی ہے
******************
|