* یہ کشمکش ہے حکایت دل بیاں کروں میں *
یہ کشمکش ہے حکایت دل بیاں کروں میں کہاں سے پہلے
ہر ایک ٹکڑا یہ کہہ رہا ہے یہاں سے پہلے ، یہاں سے پہلے
ابھی تو اظہارِ آرزو کیلئے زباں بھی کھلی نہیں تھی
سنا گئیں داستان دل کی مری نگاہیں زباں سے پہلے
خزاں کی آمد کا ڈر مجھے کیا منائیں خیراپنی اہلِ گلشن
خزاں میں اب کیا لٹے گا میرا میں لٹ چکا ہوں خزاں سے پہلے
جو میں نے مانگا تجھی سے مانگا جو میں نے چاہا تجھی سے چاہا
کہ ہاتھ میرا کبھی نہ پھیلا کہیں ترے آستاں سے پہلے
وہ کارواں راہ میں ہے اب تک بہت سے رہبر تھے جس کے صابرؔ
وہ راہ رو جو چلا تھا تنہا پہنچ گیا کارواں سے پہلے
*********************8
|