* گائوں کی برسوں پرانی جانی پہچانی *
گائوں کی برسوں پرانی جانی پہچانی سڑک
مدّتوں کے بعد اب لگتی ہے انجانی سڑک
کتنے سنگِ میل اس کے جسم سے پیوست ہیں
کررہی ہے فاصلوں کی بھی نگہبانی سڑک
اب تو بے موسم کی بارش سے بھی گھبراتی نہیں
پی چکی ہے موسمی برسات کا پانی سڑک
دیکھتی ہے جن کے پائے عزم کو ثابت قدم
پیش کرتی ہے انہیں چلنے میں آسانی سڑک
اُڑرہی ہیں آج اُس کے جسم پر چنگاریاں
کل جو اوڑھے تھی ردائے گل خیابانی سڑک
کرگئی صاؔبر ہمیں فنِّ غزل سے آشنا
آ ملی جب ہند کی سرحد سے ایرانی سڑک
************88 |