* فسردہ شوقِ سفر بھی ضرور اُس کا تھا *
فسردہ شوقِ سفر بھی ضرور اُس کا تھا
کہ جس نے پائی نہ منزل قصور اُس کا تھا
پڑوس میں کوئی پہچانتا نہ تھا اُس کو
جہاں میں شہرہ مگر ُدور ُدور اُس کا تھا
وہ جھک کے ملتا بھلا کس طرح غریبوں سے
ابھی تو بامِ فلک پر غرور اُس کا تھا
جھلک دکھائے وہ جس کو یہ اُس کی مرضی تھی
متاعِ جلوہ اُسی کی تھی، طور اُس کا تھا
ذراسی چوک سے اُس کا بگڑ گیا سب کام
اگر چہ کام میں پختہ شعور اُس کا تھا
سزائیں جس کے لئے دی گئیں مجھے صابرؔ
پتہ چلا کہ وہ سارا قصور اُس کا تھا
************************ |