* میدانِ عمل میں کہیں دو چار نظر آئے *
میدانِ عمل میں کہیں دو چار نظر آئے
منبر پہ بہت غازیٔ گفتار نظر آئے
اخلاص کی دولت تھی کہاں سب کو میّسر
اِس ضمن میں سب مفلس و نادار نظر آئے
اِس درجہ بھی انسان کو گرتے ہوئے دیکھا
پیروں پہ گرے صاحبِ دستار نظر آئے
دنیا جسے کہتی ہے ترقی کی نشانی
ہم کو تو قیامت کے وہ آثار نظر آئے
کچھ لوگ سمجھتے ہیں سمجھدار اُسی کو
جو شکل و شباہت سے سمجھدار نظر آئے
صابرؔ تھا یہی خانہ بدوشوں کا مقدر
کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے گھر بار نظر آئے
**************** |