* وہ جب مٹانے لگے تیرگی کے داغوں کو *
وہ جب مٹانے لگے تیرگی کے داغوں کو
ہوائیں دینے لگیں دھمکیاں چراغوں کو
مجھے تو لگتا ہے صحرا پسند ہیں یہ لوگ
کھنڈر بنا کے ہی چھوڑیں گے سارے باغوں کو
شکایت اہلِ چمن کو ہے باغبانوں سے
کہ شاخِ گل پہ جگہ دی گئی ہے زاغوں کو
بدلتا رہتا ہے رِندوں کی میکشی کا مذاق
رکھو سنبھال کے مٹی کے بھی ایاغوں کو
نگاہ حال کی ابتک وہاں پہنچ نہ سکی
چھپائے رکھا ہے ماضی نے جن سراغوں کو
نئے طریقۂ جور و جفا جو ڈھونڈ سکیں
تلاش کرتے ہیں صابر ؔوہ اُن دماغوں کو
******************* |