* گلشنِ آفاق کا منظر سہانا دیکھ کر *
گلشنِ آفاق کا منظر سہانا دیکھ کر
عقل گم ہے انقلاباتِ زمانہ دیکھ کر
چھن گئی اس کی ہنسی جس نے رلایا تھا مجھے
رو پڑا وہ بھی مرا آنسو بہانا دیکھ کر
یا الٰہی وہ ہمیشہ مسکراتے ہی رہیں
مسکراتے ہیں جو میرا مسکرانا دیکھ کر
ہو اگر مفلس پڑوسی منہ لگائے کون اُسے
آج کل ملتے ہیں لوگ اُونچا گھرانہ دیکھ کر
اب وہ پہلے کی طرح پھنسے نہیں ہیں دام میں
مارتے ہیں پر پرندے آب و دانہ دیکھ کر
روپئے سے کم کی اب خیرات لیتے ہی نہیں
منہ بنا لیتے ہیں سائل آٹھ آنہ دیکھ کر
ہوگئیں محتاط صابرؔ زندہ قومیں دہر کی
گردشِ دوراں کا ہم پر تازیانہ دیکھ کر
******************** |