* مکاں بنائے تھے جنہوں نے اینٹ جوڑ ج *
مکاں بنائے تھے جنہوں نے اینٹ جوڑ جوڑ کر
پڑے ہوئے ہیں راہ میں وہ اپنے گھر کو چھوڑ کر
نہ جانے صدیوں کے پڑوسیوں کو آج کیا ہوا
کسی نے زخمی کردیا کسی کے سر کو پھوڑ کر
چھپا ہوا وہ بھیڑیا تھا آدمی کے بھیس میں
کہ پی رہا ہے آدمی کا خون جو نچوڑ کر
مہک رہی تھی اک کلی جو مامتا کی گود میں
ستم گروں نے چھین لی کلائیاں مروڑ کر
اُسی کی ساری بات کا یقین کرلیا گیا
سنائی جس نے جھوٹی سچی بات توڑ جوڑ کر
لگی ہے ایسی نفرتوں کی آگ سارے ملک میں
کہ جس نے رکھ دیا ہے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر
******************** |