* کہیں قریب کہیں دُور سے چمکتا ہے *
کہیں قریب کہیں دُور سے چمکتا ہے
وہ حسن ہر رخِ پُرنور سے چمکتا ہے
چراغ بن کے کبھی طور سے چمکتا ہے
کبھی وہ صورتِ منصور سے چمکتا ہے
کمائی ہاتھ جب آتی ہے اُس کے محنت کی
سرور چہرۂ مزدور سے چمکتا ہے
بھرے ہوں شیشہ و ساغر تو زیب دیتے ہیں
کہ جامِ جم مئے انگور سے چمکتا ہے
کسی اجالے کا احساں نہیں ہے جگنو پر
وہ اپنی فطرتِ پُرنور سے چمکتا ہے
جوان چہرے پہ رونق کفن کی ہے کچھ اور
شباب غازۂ کافور سے چمکتا ہے
سیاہ رات اُسے دیتی ہے چمک صابرؔ
چراغِ شب شبِ دیجور سے چمکتا ہے
******************** |