* لگی تھی آگ شعلے کیوں نہ اٹھتے میرے *
لگی تھی آگ شعلے کیوں نہ اٹھتے میرے آنگن سے
پڑوسی جب ہوائیں دے رہے تھے اپنے دامن سے
کبھی اک مسئلہ سو مسئلوں کو جنم دیتا ہے
ہزاروں الجھنیں ہوتی ہیں پیدا ایک الجھن سے
ہمارے عہد میں گردن پہ سر محفوظ رہتے تھے
تمہارے عہد میں سر ہوگئے محروم گردن سے
کبھی بوئی گئی انسانی سر کی فصل کھیتوں میں
کبھی تنور بھڑکائے گئے جسموں کے ایندھن میں
چلو اچھا ہوا اب اپنے ہاتھوں ہی لٹیں گے ہم
ہمیں اب لوٹنے کوئی نہیں آئے گا لندن سے
کسی کو دھوکہ دینا چاہیں بھی تو دے نہیں سکتے
کہ ہم واقف نہیں صابرؔ فریب و مکر کے فن سے
******************* |