* کب رہا ان کا دیدہ ور محفوظ *
غزل
کب رہا ان کا دیدہ ور محفوظ
دل ہے قابو میں نا جگر محفوظ
نہ یہاں زیر نہ زبر محفوظ۔۔۔۔۔۔
جان،عزّت نہ مال وزر محفوظ
چھوڑ کرصرف ایک ملک عدم
کیا کہیں کا بھی ہے سفر محفوظ
اتنی آلودہ ہوگئی ہے فضا۔۔۔۔
آدمی ہے نہ جانور محفوظ۔۔۔
اڑ کے پنچھی کہیں چلا جا اور
نہیں گلشن میں بال و پر محفوظ
ٹکڑے دو ہوگئے مگر پھر بھی
رہ گیا ویسے ہی قمر محفوظ
کرتے ہوسنگ ساری اوروں پر
خود کا شیشہ کا کیا ہےگھرمحفوظ
آگئے لو وہ طیش میں پڑھ کر
اب ہےنامہ نہ نامہ بر محفوظ
عالیہ کھاتے ہیں وہ جھوٹی قسم
لو خبر اب نہیں ہے سر محفوظ
عالیہ تقوی،الہ آباد
مرسلہ
رضیہ کاظمی
|