غزل
دل کا مندر سجا کے دیکھ لیا
اس صنم کو کو بٹھا کے دیکھ لیا
کھوکے بھی کچھ تو پاکے دیکھ لیا
جھوٹ سچ آزماکے دیکھ لیا
آج تک ہم نے اس کی چوکھٹ پر
مستقل سرجھکاکے دیکھ لیا
ق
درہمارے لئے کھلا نہ کبھی
خود کو سائل بنا کے دیکھ لیا
ہاتھ ہی سینکتے رہے احباب
ہم نےگھر بھی جلا کےدیکھ لیا
صرف لہروں کی آزمائش کو
ریت پر گھر بناکے دیکھ لیا
رکھ کے فانوس رہ گزر پر بھی
شمع آخر جلاکے دیکھ لیا۔۔۔۔۔۔
زندگی کی بساط پر اکثر۔۔۔۔۔۔۔
دے کے شہ مات کھاکے دیکھ لیا
دال پھر بھی نہ گل سکی اس کی
گو شگوفہ کھلاکے دیکھ لیا۔۔۔۔۔۔
پھول کی طرح ہم نےزخموں سے
دامن دل سجا کے دیکھ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے رضییہ اداس یہ محفل
اب تو جاتے ہیں آکے دیکھ لیا