غزل
جوں آگ سلگتی ہےتواٹھتا ہےدھواں بھی
ہےسوزدروں کا یوں ہی آہوں سےگماں بھی
مائل بہ ریاضت کبھی ہوجا ئیں اگر ہم
ہوں اپنے تقابل میں سدا کرّوبیاں بھی۔۔
دیں آج جواز اپنے مظالم کا ،مگرکل۔۔۔۔۔۔۔
کیا پیش خدا کھول سکیں گےوہ زباں بھی
سوچا تو یہی تھا کہ کسی سےنہ کہیں کچھ
کھولی جوزباں چھپ نہ سکا کرب نہاں بھی
اوروں نےکیااپنےگھروں میں ہی چراغاں
رکھتے ہیں دئے ہم توا ندھیرا ہوجہاں بھی
لٹتے رہےاپنوں سےمگر ڈر ہے یہی اب
چھن جائےکہیں ہم سےنہ احساس زیاں بھی
ہم جس کی پناہوں میں ابھی تک تھےرضیہ
ہے زد میں تزلزل کےوہی اپنا مکاں بھی
رضیہ کاظمی
نیو جرسی