مکمّل غزل
پوچھتے ہیں وہ مدّعا کیا ہے
سنیۓ! کہنے کو اب رہا کیاہے
زندگی درد کے سوا کیاہے
اس نےاب تک مجھےدیا کیا ہے
پائ منزل جو کوششوں کےبعد
دل دھڑکتا ہے ماجرا کیا ہے
جو نہ جینا ہی چاہتا ہو اسے
یہ دوا اور وہ دعا کیا ہے
ہیں ادھر بےشمار تدبیریں
اس طرف دیکھیں فیصلہ کیا ہے
ہو وہ الزام سے بری کیونکر
خود ہی واقف نہیں خطاکیا ہے
زندگی اور مشابہت اس سے
سامنےاس کے بلبلہ کیا ہے
اک حسیں امتزاج مادّہ وروح
یہ بقا اور یہ فنا کیا ہے......
چارہ گرجا خبرہے خود اس کو
درد کی اس کے انتہا کیا ہے
یوں اکھاڑو نہ اب گڑے مردے
پچھلی باتوں میں اب دھراکیا ہے
دیکھ لو ظلم کے نمونے کچھ
پھر نہ کہنا کہ کربلا کیا ہے
توڑنے پر مصر رضیّہ ہو.....
کوئ رشتہ تو پھر سرا کیا ہے
رضیہ کاظمی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸