دیرینہ دوستوں کی وہ صحبت کبھی کبھی
پھر یاد آئ ان کی رفاقت کبھی کبھی.....
کم طاقتی نے دی ہےہزیمت کبھی کبھی
آتی ہے کام ہمّت و جراءت کبھی کبھی
آتی ہیں یاد جب وہ تری بد سلوکیاں
ہوتی ہےتیرےنام سےوحشت کبھی کبھی
ہم لب کشاہوۓ نہ مگر تھا وہ روبرو
برہم ہو ئ ہے یوں بھی طبیت کبھی کبھی
اکثرسمجھ رہےتھےجنھیں حیثیت میں کم
محسوس کی ہےان کی ضرورت کبھی کبھی
وقف رفاہ عام ہو،بہتر ہے، پھر بھی کچھ
اپنے لیۓ بھی چاہيۓفرصت کبھی کبھی
بیٹھے بٹھاۓ حالت سنجیدگی میں یوں
دل کوبھی سوجھتی ہےشرارت کبھی کبھی
ماضی میں جوکہ تھابھی نہیں کیجيۓجوآج
کہتےہیں وہ کہ یہ بھی ہےبدعت کبھی کبھی
عاجز ہےمحفلوں سے رضیّہ جو ان دنوں
دل ڈھونڈ تا ہےگو شۂ عزلت کبھی کبھی
رضیہ کاظمی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸