غزل
پیچھے مرے جو بات سنائ گئ تو کیا
اک داستان گڑھ کے بنا لی گئ تو کیا
اٹّھیں گےاب تو اس سےبگولےکی طرح ہم
گھر کو جلا کے خاک اڑادی تو کیا ہوا
بہتر تھا سونےدیتے نہ پہلے ہی قوم کو
فتنے کی طرح پھر وہ جگائ گئ تو کیا
حس ان کوکیامکیں ہیں وہ اونچےمکان کے
کٹیا غریب کی جو اجاڑی گئ تو کیا
سودا ہزار بار جو غیرت کا کرچکا
ٹوپی گرآج اس کی اچھالی گئ توکیا
راہ طلب میں خواہشیں مرتی ہیں دل میں روز
میّت جو آج کوئ نکالی گئ تو کیا
دھونی رما کے بیٹھ گۓ در پہ پاسباں
محفل میں داخلے کی سزا دی گئ تو کیا
خوشبو کی طرح رک نہ سکے گی یہ انسیت
دیوار نفرتوں کی اٹھا دی گئ تو کیا
امّید اس سے کام نکلنےکی اب نہیں
ہستی وہ بعد مرگ بھلا دی گئ تو کیا
تلقین پڑھ رہے ہیں رضیّہ وہ قبر پر
مرنے کے بعد اب یہ صدادی گئ تو کیا
رضیہ کاظمی
*************************