جذبۂ عشق نے دیوانہ بنا رکّھا ہے
دربدر کر کے سدا آبلہ پا رکّھا ہے
درد دل درد جگر اور سدا رسوائ
پیارمیں اس کےسوااور بھی کیارکّھاہے
یہ ہی دولت ہےمری، یہ ہی خزانہ میرا
اک ترےدرد کو پہلو میں چھپا رکّھاہے
جان کےمیں نےمداواۓ غم ہجراں صرف
یاد کو اب تری سینے سے لگا رکّھا ہے
اس سے تکرار ہوئ اب تولگا یہ بالکل
جیسےگلدان میں کانٹا بھی سجارکّھاہے
مصلحت کہیۓکہ مجبوریاں دشمن سےبھی
رابطہ ہم نے بحر حال بنا رکّھا ہے
جلد لاؤ کوئ فانوس کہ تا بجھ نہ سکے
جب دیا زد پہ ہواؤں کے جلا رکّھا ہے
برق تڑ پےیونہی ارمان نہ پورے ہوں کبھی
آشیاں اس لیۓ خود میں نے جلا رکّھا ہے
اب سنبھلتا ہی نہیں یہ دل شوریدہ سر
نفس امّارہ نے دلدل میں پھنسا رکّھا ہے
نورسے اس کے رضیّہ نہ منوّر ہو کیوں
عکس اس آئینۂ دل میں بسا رکّھا ہے
رضیہ کاظمی
***********