غزل
راحت سے کوئ پل بھی گزرنے نہیں دیتا
یہ دل کہ مجھےچین سے مرنے نہیں دیتا
یہ ڈر کہ پس قافلہ رہ جائیں نہ اکثر
واماندوں کو رستےمیں ٹھہرنےنہیں دیتا
اک پاس وفا یا کہ تقاضاۓ شرافت
مجھکوکبھی وعدوں سےمکرنےنہیں دیتا
لائیں بھی جوحالات خیالوں میں تزلزل
یہ عزم دلی ان کو بکھرنے نہیں دیتا
مچلا دل رنجورمیں کچھ شوق کبھی تو
آئینۂ احساس سنورنے نہیں دیتا
رندان بلا نوش تو چھلکائیں مجھے یہ
ساقی ہےکہ اک جام بھی بھرنےدیتا
غم پاس نہیں اس کےپھٹکتاکہ کبھی وہ
احساس زیاں دل میں اترنے نہیں دیتا
یہ دل کوئ غلطی ہو جو سہوا"بھی رضیّہ
دریاۓ ملا مت سے ابھرنے نہیں دیتا
رضیہ کاظمی
********************