یہ جو ہستی ہےحقیقت سےگماں ٹھیرےگی
ہےگماں جس پہ فقط خواب گراں ٹھیرےگی
وسط دریا جو یہ کشتئ رواں ٹھیرے گی
ہوگا اس کاوہی ساحل وہ جہاں ٹھیرے گی
اک مداواۓ تپ ہجر یہی ہو شاید...........
زلف جاناں کی گھٹا راحت جاں ٹھیرے گی
زند گی کو نہیں معلوم نشا ن منزل.........
خود ہی، کس موڑ پہ جانا ہےکہاں ٹھیرےگی
تیر ترکش میں ترےاب بھی ہیں کتنے ظالم
زد پہ کتنےہیں ابھی کب یہ کماں ٹھیرےگی
فصل گل آئ ہوۓ پھول خوشی سے خنداں
پھر وہی باغ میں بلبل کی فغاں ٹھیرے گی
ہم جو آمادہ تکرار نہیں اس سے اب........
ہوکے مجبور ہی قینچی سی زباں ٹھیرےگی
اشک شوئ کو نہیں جان کے کوئ موجود
چاہ ہونے کی ابھی گریہ کناں ٹھیرے گی
دم لبوں پر ہے رضیّہ ہےمگر منتظر دید....
اب جو آؤ تو ذرا دیر یہ جاں ٹھیرے گی...
رضیہ کاظمی
نیوجرسی
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸