سانحہ پر سانحہ کچھ سوچنے دیتا نہیں
عقل کا کوئ دریچہ کھولنے دیتا نہیں
تھک چکےاک عمرجہد مستقل میں کی بسر
پر یہ چکّر پاؤں کا جو بیٹھنے دیتا نہیں
اس کو بھڑکاتی رہی یہ نفس امّارہ مگر
مثل شے ایماں کو یہ دل بیچنے دیتا نہیں
لاکے ہر دم ڈالتا ہے شاہراہ عام پر
یہ زمانہ جادۂ حق کھوجنے دیتا نہیں
کس طرح اب تک تمہیں اس سےامید صلح ہے
جو زباں ہی مسئلوں پر کھولنے دیتا نہیں
کیا توقّع ہم کو بیداری میں وصل یار کی
خواب میں بھی توقریں وہ بیٹھنےدیتانہیں
رہ گۓ نا آشناۓ لطف خفگی آج تک
ہم کہ ، وہ ظالم کبھی تو روٹھنےدیتا نہیں
دل میں گر اک عزم محکم ہو براۓ راستی
پھر رضیّہ راہ بد یہ دیکھنے دیتا نہیں
رضیہ کاظمی
******************